پاکستانی فٹبال کی تاریخ کے مہنگے ترین کھلاڑی

  • عبدالرشید شکور
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
کلیم اللہ کا تعلق چمن سے ہے اور وہ پاکستان کے مشہور فٹبالر محمد عیسٰی کے چچا زاد بھائی ہیں
،تصویر کا کیپشن

کلیم اللہ کا تعلق چمن سے ہے اور وہ پاکستان کے مشہور فٹبالر محمد عیسٰی کے چچا زاد بھائی ہیں

پاکستانی فٹبال کی تاریخ کے مہنگے ترین کھلاڑی کلیم اللہ کی خواہش ہے کہ وہ یورپی فٹبال میں بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کریں۔

کرغستان کے کلب ڈورڈوئی نے کلیم اللہ کے ساتھ ایک لاکھ ڈالر کے عوض دو سال کا معاہدہ کیا ہے۔

22 سالہ کلیم اللہ پاکستانی فٹبال ٹیم کے کپتان ہیں اور قومی مقابلوں میں کے آر ایل کی نمائندگی کرتے ہیں۔

انھوں نے اس سال پانچ ماہ کے ابتدائی معاہدے کے تحت ڈورڈوئی کلب کی نمائندگی کی تھی اور ان کے عمدہ کھیل نے ڈورڈوئی کو ان کے ساتھ دو سالہ معاہدے پر مجبور کر دیا۔

اس معاہدے کے تحت انھیں ایک لاکھ ڈالر کی خطیر رقم ملے گی جو کسی بھی غیر ملکی کلب کی جانب سے کسی پاکستانی فٹبالر کو دیا جانے والا سب سے بڑا معاوضہ ہے۔

کلیم اللہ دوسرے پاکستانی فٹبالر ہیں جن سے ڈورڈوئی نےمعاہدہ کیا ہے ان سے قبل محمد عادل بھی اس کی جانب سے کھیل رہے ہیں۔

کلیم اللہ نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ پروفیشنل فٹبال کھیلنا ہر کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے اور یہ ان کے خواب کی تعبیر ہے۔

’میرے پاکستان سے باہر جا کر کھیلنے سے جہاں نوجوان فٹبالرز کے لیے راستہ کھلا ہے وہیں یہ بات بھی دنیا کو پتہ چل گئی ہے کہ پاکستانی فٹبال میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے۔ بدقسمتی سے پاکستانی فٹبال کو عالمی رینکنگ سے پرکھا جاتا ہے جبکہ یہاں باصلاحیت کھلاڑیوں کی کمی نہیں ہے جنھیں غیرممالک میں مواقع ملیں تو وہ خود کو اعلیٰ معیار کا ثابت کر سکتے ہیں۔‘

کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ ان کی نظریں یورپی فٹبال پر مرکوز ہیں۔

’کرغستان کی لیگ میری ابتدا ہے منزل نہیں۔ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار یورپی فٹبال میں بھی کرنا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ایک دن میں یورپ کے کسی کلب کی نمائندگی کرنے میں بھی کامیاب ہو جاؤں گا۔‘

کلیم اللہ کا تعلق چمن سے ہے اور وہ پاکستان کے مشہور فٹبالر محمد عیسٰی کے چچا زاد بھائی ہیں ۔وہ اپنے ابتدائی کریئر میں محمد عیسیٰ کے ہی معترف رہے۔

’میں نے جس ماحول میں فٹبال شروع کی تو اس وقت نہ کیبل تھی نہ غیر ملکی چینلز دیکھنے کو ملتے تھے لہذٰا اپنے اردگرد کے فٹبالرز کو ہی دیکھ کر فٹبال شروع کی اور عیسیٰ اس وقت میرے آئیڈیل تھے۔‘

کلیم اللہ کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ڈورڈوئی کلب سے ملنے والا بھاری معاوضہ ان کے حالات بدل دے گا لیکن وہ اپنا ماضی بھولنے کے لیے تیار نہیں۔

’میں سکول میں پڑھتا تھا اور فٹبال بھی کھیلتا تھا اور اس وقت سے میری سوچ یہی تھی کہ میں فٹبال میں نام پیدا کروں اور گھروالوں کے کام آؤں۔ میں نے جن حالات میں فٹبال کھیلی اس میں مکمل کٹ بھی دستیاب نہیں تھی۔ میں نے شلوار قمیض اور پتھریلی زمین پر جوتوں کے بغیر فٹبال کھیلی ہے۔‘

کلیم اللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان فٹبال فیڈریشن نے اس سال متعدد غیرملکی دوروں کے ذریعے کھلاڑیوں کو کھیلنے کے مواقع فراہم کیے ہیں لیکن یہ تعداد بڑھنی چاہیے کیونکہ کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع ملنے سے ان کے کھیل میں نمایاں بہتری آئے گی۔

’بھارت کے خلاف سیریز کے دوران ہمارے میزبان پاکستانی کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ اگر انھیں بین الاقوامی سطح پر کھیلنے کے مواقع ملیں تو وہ بہت آگے جا سکتے تھے۔ بھارت میں فٹبال کا معیار ہم سے بہت بلند ہے اور وہ اپنی لیگ میں باہر سے کھلاڑی اور کوچ لاتے ہیں اس کے باوجود پاکستانی ٹیم نے بھارت سے سیریز برابر کھیلی۔‘